گاؤں میںدم گھٹتا ہے
میٹرک میں پاس تو ہوگیا مگر نمبر کم آئے تھے‘ کسی اچھے کالج میں داخلہ نہیں ملا‘ میں نے سوچا دوبارہ محنت سے پاس ہوجاؤں گا لیکن والد نے مجھے اپنے پاس گاؤں میں بلوالیا۔ وہاں زمینوں پر ان کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ والدہ بڑے بھائیوں کے ساتھ شہرمیں رہتی ہیں۔ میرے بھی بہت دوست تھے جو اب کالج میں پڑھ رہے ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ رہتا تھا۔ ہر جگہ گھومنا پھرنا معمول تھا۔ گاؤں میں دم گھٹتا ہے۔ (رضوان‘ فیصل آباد)
مشورہ: زندگی اچھی طرح گزارنے کیلئے کوئی نہ کوئی کام تو کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے والد نے دیکھا کہ آپ نے میٹرک میں اچھے نمبر حاصل نہیں کیے۔ اس کا مطلب ہے تعلیم کی طرف آپ کا رجحان نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے ساتھ کام میں شامل کرلیا۔ یہ تو اچھی بات ہے آپ کو والد کا ساتھ دینے کا موقع ملا‘ رہی دوستی تو اچھے لوگوں سے یہاں بھی دوستی کی جاسکتی ہے۔ شہر کے دوست بچھڑ گئے تو اب انہیں یاد کرکے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ زندگی میں انسان بہت سے لوگوں سے ملتا ہے اور بہت سے بچھڑتا ہے اگر سب کی یاد لے کر بیٹھیں تو زندگی گزارنی کٹھن ہوجائے۔ جو چند اچھے دوست ہوتے ہیں ان سے رابطے میں رہا جاسکتا ہے۔ فون کے ذریعے خیریت معلوم کی جاسکتی ہے۔مایوسی اور بیزاری سے دور رہنے کا ایک اچھا طریقہ نیک مقاصد اور بلند ارادوں کی تکمیل بھی ہے۔ بھرپور عزم‘ مضبوط قوت ارادی اور صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اپنے وقت کو اچھے طریقے سے گزاریں۔
موت اور تنہائی…
میں اگر معمولی سا بیمار ہوجاؤں یا گھر میں کوئی اور بیمار ہوجائے تو مجھے موت کے خیالات آنے لگتے ہیں۔ کسی کی بیماری کا سن کر بھی یہی حال ہوتا ہے اورتکلیف دہ خیالات مسلط رہتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ذہنی سکون سے محروم ہوں۔ گھر میں کوئی مہمان آجائے یا کوئی تقریب ہو تو خوش رہتا ہوں ورنہ تنہائی تو بہت ناگوار گزرتی ہے۔ صبح سے سہ پہر تک طبیعت ٹھیک رہتی ہے مگر جیسے جیسے شام ہوتی ہے ذہنی دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔ (سلطان احمد‘ سکھر)
مشورہ: ایک مشہور مفکر نے کہا ’’انسان کے دل و دماغ پر خوف کا جتنا اثر ہوتا ہے اتنا کسی اور طاقت کا نہیں ہوتا۔ محبت‘ پریشانی‘ مایوسی‘ کمتری یہ سب انسان کو ضرور دکھی کرتے ہیں لیکن یہ ہوا کے ہلکے جھونکے ہیں اور خوف شدید آندھی ہے‘‘ ایک اور مفکر نے کہا کہ جس نے اپنی روح کومعلوم کرلیا اس کو موت کا خوف ختم ہوگیا‘ موت کا خوف ختم ہونے سے ہر قسم کے خوف ازخود ختم ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو خوف کا شکار زندگی میںکبھی نہ کبھی ہر ایک ہی ہوتا ہے لیکن اگر کسی شخص کے ذہن پر کسی بھی طرح کا خوف مسلط ہوجائے اور وہ اپنی زندگی کے معمولات کی انجام دہی میں بھی مشکل محسوس کرنے لگے تو یہ مریضانہ خوف ہوگا اور اس کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ آپ کے ذہن پر بیماری اور اس کے ساتھ موت کا خوف مسلط ہورہا ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ لوگ طویل عرصے بیمار رہنے کے بعد بھی بالکل ٹھیک ہوجاتے ہیں اور معمولات زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد ان لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جو بیمار ہوتے ہی اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ موت تو ایک نہ ایک دن ہر شخص کو آنی ہے جو بیمار نہیںہوتے وہ حادثات میں ختم ہوجاتے ہیں تو موت کے خوف کا شکار ہوکر انسان صرف اپنی ہی زندگی کومشکل میں ڈالتا ہے لہٰذا موت کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے زندگی کیلئے دعاگو رہیں‘ دعائیں قبول ہوں تو تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ بہرحال خود کو اچھی مصروفیت میں شامل رکھیں تاکہ پریشانی کی طرف توجہ نہ جائے۔
کبھی ہم بھی زندہ دل تھے
آج مجھے دیکھ کر مجھ سے مل کر کوئی کہہ نہیں سکتا کہ کبھی میں بھی خوش مزاج اور زندہ دل ہوا کرتا تھا اب کسی بات سے نہ تو دلچسپی ہے اور نہ اہمیت‘ خوشی میرے لیے یا میری شخصیت کیلئے ماضی کا گمشدہ قصہ بن کر رہ گئی ہے کیونکہ جس کے دم سے خوشی تھی جس کا وجود جینے کی امنگ پیدا کرتا تھا وہ ہی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ میں نے اپنی پسند پر شادی کی‘ ایک بیٹا ہوا جو اب بہن کے پاس ہے اور بیوی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ گاؤں کے چھوٹے سے شفاخانے میں جدید طبی سہولیات موجود نہ ہونے کے سبب میری بیوی کی زندگی نہ بچائی جاسکی۔ اس جدائی کے بعد بہت لوگوں نے کہا کہ شادی کرلو مگر میں نے اب زندگی یونہی گزارنے کاارادہ کرلیا ہے اگر شادی کرلی تب بھی کسی کو محبت نہ دے سکوں گا کیونکہ میرے دل و دماغ سے اس کی محبت ابھی تک نہیں گئی۔ لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے کہ میں پاگل ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔ خط لکھنے کا سبب یہ ہے کہ اپنی موت کا خیال آنے لگا ہے سوچتا ہوں کہ مر کر ضرور خوشی نصیب ہوجائیگی۔ (اظہربٹ‘ چنیوٹ)
مشورہ: آپ کی ذہنی کیفیت سے مایوسی کا اظہار ہورہا ہے۔ ڈیپریشن یا اضمحلال معلوم ہوتا ہے۔ کسی قریبی عزیز کی موت کوئی حادثہ یا کوئی ناخوشگوار واقعہ جو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے اس حالت کا سبب ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سروے کے مطابق پوری دنیا کی آبادی کا تقریباً بیس فیصد حصہ اس کا شکار ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق 2020ء تک ڈیپریشن کا مرض تمام بیماریوں میں سرفہرست ہوگا۔ آپ کی کیفیت مایوس کن ضرور ہے مگرہمیشہ رہنے والی نہیں آپ کو اس حالت کا شعور ہوگیا ہے اور موت کا خیال آنے پر قلم اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اپنی اصلاح چاہتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں‘ عام طور پر تو لوگ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ مایوسی بڑھتی ہے تو انسان اپنی زندگی تک داؤ پر گادیتا ہے۔ اپنے بچے سے ملیں اس کے ساتھ کھیلیں اور خود کو پرسکون رہنے کی ترغیب دیں۔ مشکل‘ پریشانی اور مایوسی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا مشکلات و مصائب سے نجات حاصل کرنا ہے کیونکہ جو اللہ تعالیٰ کو صدق دل سے یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سکون قلب عطا فرماتا ہے۔ زندگی اور موت سب کچھ تو اس کی طرف سے ہے۔ انسان نہ خود جی سکتا ہے نہ خود مرسکتا ہے۔ محض یہ خیال کرنا کہ زندہ رہنے کا فائدہ نہیں اور مرنے کے بعد خوشی نصیب ہوگی نادانی اور ناشکری ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں